عید الاضحیٰ کے پرمسرت موقع پر بلوچستان میں ایک ایسا واقعہ پیش آیا ہے جس نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ سوشل میڈیا پر گردش کرتی ایک لرزہ خیز ویڈیو نے اس سانحے کو عام لوگوں کی آنکھوں کے سامنے لا کھڑا کیا ہے۔ ویڈیو میں دکھایا گیا ہے کہ کس طرح مسلح افراد نے ایک نوجوان لڑکی اور ایک نوجوان کو نہایت قریب سے گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ یہ منظر اتنا سفاکانہ اور بے رحمانہ تھا کہ دیکھنے والے خوف، غصے اور دکھ میں ڈوب گئے۔
عوامی ردعمل اور ماں کا بیان
جہاں پورا ملک اس ظلم کے خلاف آواز اٹھا رہا تھا وہیں مقتولہ کی والدہ کا ایک بیان سامنے آیا ہے جس نے معاملے کو مزید حساس بنا دیا ہے۔ خاتون نے نہ صرف قتل کی حمایت کی بلکہ یہ بھی کہا کہ ان کے قبیلے کے افراد نے "غیرت” کا کام کیا ہے۔ ان کے اس بیان پر سوشل میڈیا اور عوامی حلقوں میں شدید غم و غصہ دیکھنے کو ملا ہے۔ لوگوں نے سوال اٹھایا کہ ایک ماں آخر کس طرح اپنی بیٹی کے قتل کو درست قرار دے سکتی ہے؟
گرفتاریاں اور ریاستی مؤقف
واقعے کی سنگینی کے پیش نظر قانون نافذ کرنے والے ادارے فوری حرکت میں آئے۔ سرکاری ذرائع کے مطابق اب تک کم از کم گیارہ افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔ ان میں قبائلی رہنما سردار شیر باز ستک زئی بھی شامل ہیں جن کے کردار پر خاص طور پر تحقیقات کی جا رہی ہیں۔
بلوچستان کے وزیر اعلیٰ میر سرفراز بگٹی نے اپنے ایک بیان میں ان گرفتاریوں کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ ریاست متاثرین کے ساتھ کھڑی ہے اور کسی صورت انصاف میں رکاوٹ برداشت نہیں کی جائے گی۔ انہوں نے سوشل میڈیا پر اپنے پیغام میں کہا، "کوئی فرد یا قبیلہ قانون سے بالاتر نہیں۔”
علماء کرام کا مؤقف
اس واقعے کے بعد ملک بھر کے مختلف مذہبی مکاتبِ فکر سے تعلق رکھنے والے علماء نے بھی شدید ردعمل دیا ہے۔ علماء کونسل نے اپنے مشترکہ بیان میں واضح کیا ہے کہ اسلام کسی بھی صورت غیرت کے نام پر قتل کی اجازت نہیں دیتا۔ انہوں نے عوام سے اپیل کی ہےکہ وہ اس عمل کو قبیلہ یا روایت کا نام دے کر جواز فراہم نہ کریں کیونکہ کسی رسم یا تعلق کو انسانی جان لینے کا اختیار نہیں۔
پاکستان علماء کونسل نے بلوچستان میں قتل ہونے والی خاتون کی والدہ کی طرف سے آنے والے بیان کو قرآن و سنت اور پاکستان کے آئین اور قانون کے منافی قرار دیتے ہوئے کہا کہ بیان ظاہر کرتا ہے کہ قتل میں والدین کی مرضی شامل تھی۔ انکو بھی سزا ملنی چاہیئے۔
— Naveed Elahi (@Aaibak) July 23, 2025
بلوچستان کے اس افسوسناک واقعے نے کئی سوالات کو جنم دیا ہے۔ یہ نہ صرف معاشرتی رویوں کی عکاسی کرتا ہے بلکہ ریاستی سطح پر انصاف کے نظام کو بھی ایک امتحان میں ڈال دیتا ہے۔ اس وقت سب کی نظریں اس کیس پر جمی ہوئی ہیں کہ آیا واقعی انصاف مہیا کیا جائے گا یا یہ واقعہ بھی پرانی فائلوں میں دب کر رہ جائے گا۔