اخوان المسلمون کی سب سے بڑی خصوصیت اس کا دوہرا بیانیہ ہے۔ ایک طرف یہ تنظیم عوامی سطح پر اعتدال پسندی، جمہوریت اور مکالمے کی بات کرتی ہے، لیکن پردے کے پیچھے اس کی اصل سوچ انتہاپسندی اور نظریاتی شدت پسندی پر مبنی ہے۔ یہ تضاد محض اتفاق نہیں بلکہ ایک سوچی سمجھی حکمتِ عملی ہے تاکہ پالیسی سازوں اور عوام کو دھوکے میں رکھ کر اپنے مقاصد کو آگے بڑھایا جا سکے۔
اخوان کی سب سے مؤثر حکمت عملی اس کی "نرم مداخلت” ہے۔ یہ تنظیم طاقت کے ذریعے نہیں بلکہ اداروں کے اندر داخل ہو کر اپنا اثر بڑھاتی ہے۔ برطانیہ میں یہ حکومتی مشاورتی اجلاسوں، کمیونٹی آرگنائزیشنز اور تعلیمی اداروں میں خود کو "مسلمانوں کی نمائندہ آواز” کے طور پر پیش کرتی ہے۔ حکومتی فنڈز، شراکت داری اور سرکاری سطح پر رسائی حاصل کرنا اس کے لیے کمیونٹی کی بہتری کا ذریعہ نہیں بلکہ اپنے نیٹ ورک کو مزید مضبوط کرنے کا ہتھیار ہے۔
یہ تنظیم انسانی حقوق اور آزادیوں کو بھی اپنے فائدے کے لیے استعمال کرتی ہے۔ آزادیِ اظہار، اجتماع کی آزادی اور امتیازی سلوک سے بچاؤ جیسے قوانین دراصل سب شہریوں کے تحفظ کے لیے ہیں، لیکن اخوان انہیں اپنے نظریے کے فروغ کے لیے استعمال کرتی ہے۔ یہ اپنے لیے تو آزادی کا مطالبہ کرتی ہے مگر برطانوی مسلم کمیونٹی میں اختلاف رائے رکھنے والوں کی آواز دبانے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتی۔
اخوان المسلمون کی ایک اور خطرناک روش شناخت اور مذہب کے استحصال کی ہے۔ یہ اسلام اور مسلم شناخت کو اپنے سیاسی ایجنڈے کے لیے ہتھیار بناتی ہے اور جو مسلمان اس کے مؤقف سے اختلاف کریں انہیں غدار یا "غیر مستند” قرار دے کر الگ کر دیا جاتا ہے۔ اس طرح یہ تنظیم برطانوی مسلم کمیونٹی کے اندر تنوع کو ختم کرنے اور سوچ کے اختلاف کو دبانے کا باعث بنتی ہے۔
یہ تنظیم مذہب کو ایک جامع روحانی و تہذیبی ورثہ سمجھنے کے بجائے اسے ایک محدود سیاسی نظریے میں تبدیل کر دیتی ہے۔ نتیجتاً برطانوی معاشرے میں تنوع اور ہم آہنگی متاثر ہوتی ہے اور اسلام کے نام پر ایک یک رخی نظریہ مسلط کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
آخر میں، اخوان المسلمون کا کردار صرف برطانیہ تک محدود نہیں بلکہ اس کی سرگرمیوں کا ایک بین الاقوامی پہلو بھی ہے۔ یہ تنظیم عالمی سطح پر اپنے نیٹ ورک کو استعمال کرتے ہوئے مختلف ممالک میں اثر انداز ہونے کی کوشش کرتی ہے۔ برطانیہ میں اس کی موجودگی کو صرف مقامی مسئلہ سمجھنا ایک سنگین غلطی ہوگی، کیونکہ دراصل یہ ایک عالمی سیاسی منصوبے کا حصہ ہے جس کا مقصد اپنے نظریاتی اور سیاسی اثر و رسوخ کو بڑھانا ہے۔
برطانیہ اور مغربی دنیا کے لیے یہ وقت ہے کہ وہ واضح مؤقف اپنائے۔ اسلام اور اسلام ازم (اسلامی نظریاتی انتہا پسندی) میں فرق کو سمجھنا ضروری ہے۔ اگر اخوان المسلمون جیسی تنظیموں کو مسلمان کمیونٹی کی نمائندہ آواز تسلیم کیا جاتا رہا تو اس کا سب سے بڑا نقصان انہی مسلمانوں کو ہوگا جو آزادی، تنوع اور حقیقی شمولیت کے خواہاں ہیں۔
2015 میں برطانوی حکومت نے، وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون کے حکم پر، مسلم برادرہُڈ پر ایک تحقیق کروائی تھی۔ اس رپورٹ نے نتیجہ اخذ کیا کہ یہ تنظیم خفیہ طریقے سے کام کرتی ہے اور اس کا دوہرا بیانیہ ہے: عوامی سطح پر اعتدال جبکہ نجی سطح پر انتہا پسندی۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ برادرہُڈ کی سوچ اور نیٹ ورک جمہوری اقدار کے لیے خطرہ بن سکتے ہیں۔ لیکن تقریباً ایک دہائی گزر جانے کے باوجود وہ رپورٹ الماریوں میں بند ہے اور برادرہُڈ برطانوی معاشرے میں اپنی جڑیں مضبوط کر رہی ہے۔
برطانوی مسلمانوں کے تحفظ کے لیے ہمیں صرف اسلاموفوبیا کی مذمت پر اکتفا نہیں کرنا چاہیے بلکہ ان قوتوں کا بھی مقابلہ کرنا ہوگا جو اندر سے مسلمانوں کی زندگی کو کنٹرول کرنا چاہتی ہیں۔ یہ جبر نہیں بلکہ آزادی ہے: اس بات سے انکار کہ مذہبی شدت پسند پورے مذہب کے ترجمان بنیں۔
خاموشی برداشت کی قیمت نہیں۔ اصل برداشت اخلاقی وضاحت سے آتی ہے۔ برطانیہ کو اس فریب کو رد کرنا ہوگا کہ اسلام پسند تحریکیں مسلم شناخت کی نمائندگی کرتی ہیں۔ تبھی برطانوی مسلمان تعصب اور اسلامزم کے بیچ کچلے جانے سے بچ سکیں گے۔