بابا بلھے شاہ، جن کا اصل نام سید عبداللہ شاہ تھا، 1680 میں پنجاب کے قصبے اوچ گیلانوالہ میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد سید سخی محمد درویش ایک مذہبی عالم تھے، اور آپ کے خاندان کا تعلق صوفی سلسلہ قادریہ سے تھا۔ بچپن ہی سے بابا بلھے شاہ کو علم حاصل کرنے کا شوق تھا، اور آپ نے ابتدائی تعلیم قصبے میں ہی حاصل کی۔
بعد ازاں، بابا بلھے شاہ نے لاہور کا رخ کیا جہاں آپ نے مشہور صوفی بزرگ حضرت شاہ عنایت قادری کی شاگردی اختیار کی۔ حضرت شاہ عنایت کے زیرِ تربیت، بابا بلھے شاہ نے دنیاوی علوم سے زیادہ روحانی علوم پر توجہ مرکوز کی۔ آپ نے تصوف کے عمیق راستوں پر سفر کیا اور جلد ہی ایک بلند پایہ صوفی بن گئے۔
بابا بلھے شاہ کی شاعری میں عشق حقیقی، انسانیت، اور معاشرتی منافقت کے خلاف آواز اٹھائی گئی ہے۔ آپ کی شاعری میں سادگی اور دل نشینی کے باوجود فلسفیانہ گہرائی موجود ہے۔ آپ نے ہیر رانجھا، چرخہ، اور دیگر مقامی استعاروں کو اپنی شاعری میں بھرپور انداز میں استعمال کیا اور انہیں نئے معنی عطا کیے۔ آپ کی شاعری کا ایک مشہور کلام یہ ہے:
"بلھیا کی جاناں میں کون؟”
آپ کی شاعری نے صدیوں بعد بھی لوگوں کے دلوں پر گہرا اثر چھوڑا ہے، اور آج بھی آپ کی شاعری کو دنیا بھر میں گایا اور پڑھا جاتا ہے۔ بابا بلھے شاہ نے ہمیشہ لوگوں کو مذہبی تفرقہ بازی اور تعصبات سے دور رہنے کا درس دیا۔ آپ نے اپنی شاعری میں کہا کہ مذہب اور ذات پات کے جھگڑے محض ظاہری فرق ہیں اور اصل میں تمام انسان ایک ہیں۔ آپ کا پیغام امن، محبت اور انسانیت کی بلندیوں کا تھا۔
بابا بلھے شاہ کا انتقال 1757 میں قصور میں ہوا، جہاں آج بھی آپ کا مزار موجود ہے اور لاکھوں زائرین وہاں حاضری دیتے ہیں۔