ترکی کے صدر طیب اردگان کی جانب سے ترکی کیں موجود تاریخی اہمیت کی حامل عمارت آیا صوفیہ کو میوزیم سے مسجد میں تبدیل کرنے کے صدارتی حکم نامے پہ دستخط ہو چکے ہیں۔ ترکی کے صدر کی جناب سے یہ صدارتی حکم نامہ تب ظاہر ہوا جب عدالت کی جانب سے آیا صوفیہ کی میوزیم کی حیثیت کو ختم کر کے مسجد میں تبدیل کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔
یہ وہ عمارت ہے ڈیڈھ ہزار سال ایک کلیسا کے طور پر استعمال ہوتی رہی ہے جبکہ سلطنت عثمانیہ کے دور میں اس کو ایک مسجد میں تبدیل کر دیا گیا تھا تاہم بعد میں پھر اسے 1935 میں مصطفی کمال اتاترک کی جانب سے ایک میوزیم کے طور پر عام مسلمانوں کے لئے کھول دیا گیا۔
یاد رہے کہ جولائی کے شروع میں ہی ترکی کے کونسل آف سٹیٹ نے استنبول میں قائم آیا صوفیہ میوزیم کو مسجد میں تبدیل کرنے کا فیصلہ موخر کیا تھا جو کہ اس جمعہ کو سنا دیا گیا ہے جس میں آیا صوفیہ کی میوزیم کی حیثیت کو ختم کر کے مسجد میں تبدیل کرنے کی اجازت دے دی گئی ہے جس کے بعد صدارتی حکم نامے کی راہ ہموار ہوئی ہے۔
آیا صوفیہ کی عمارت کو یونیسکو کی جانب سے عالمی ورثہ قرار دے دیا گیا ہے جس کے بعد یونیسکو نے ترک صدر سے اپیل کی تھی کہ وہ اس کی حیثیت کو تبدیل نا کریں جبکہ ترک صدر طیب اردگان اس کی مسجد کی حیثیت سے حمایت کرتے آئے ہیں۔
یہ آیا صوفیہ کی عمارت بادشاہ جسٹئین اول کے دور میں بنائی گئی تھی جس کے بعد تقریبا ایک ہزار سال تک یہ دنیا کا سب سے بڑا گرجا گھر رہ چکی ہے۔ سلطنت عثمانیہ کی جانب سے جب 1453 میں استنبول کو فتح کیا گیا تو اسے مسجد کی حیثیت میں بدل دیا گیا جبکہ اس کے بعد 1930 میں اسے مسجد سے ایک میوزیم کی حیثیت دے دی گئی۔ ترک صدر طیب اردگان نے اپنی انتخابی مہم میں قوم سے یہ وعدہ کیا تھا کہ وہ برسرقتدار آ کر اس میوزیم کی حیثیت کو مسجد میں تبدیل کریں گے۔
ترکی کی عدالت نے جمعہ کو دیے گئے اپنے فیصلے میں لکھا کہ ہم اس نتیجے پہ پہنچے ہیں کہ تصفیے کی دستاویز میں اسے ایک مسجد کے طور پر مختص کیا گیا تھا لہذا قانونی طور پر آیا صوفیہ کی عمارت کو سوائے مسجد کے کسی اور مقصد کے لئے استعمال نہیں کیا جا سکتا۔
عدالت کی جانب سے کہا گیا کہ 1934 میں آیا صوفیہ کی عمارت کو مسجد سے میوزیم میں تبدیل کرنے کا جو فیصلہ ہوا وہ قانون سے مطابقت نہیں رکھتا ہے۔
بعض عالمی اداروں کی جناب سے آیا صوفیہ کی حیثیت کو میوزیم سے مسجد میں تبدیل کرنے کے اقدام پر اظہار افسوس کیا گیا ہے۔ البتہ ترکی نے اپنے جاری موقف میں کہا ہے کہ عدالت کی جانب سے مسجد کی حیثیت کے بعد اس کا یہ مطلب نہیں کہ آیا صوفیہ باقی مذاہب کے لئے بند ہو جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ ملکی و غیر ملکی سیاحوں کو اس میں آنے کی اجازت ہو گی۔