بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے پاکستان کے لیے 7 ارب ڈالر کے قرض کی منظوری دے دی ہے۔ یہ معاہدہ 37 ماہ کے لیے "ایکسٹینڈڈ فنڈ فیسیلیٹی” کے تحت طے پایا ہے اور اس کے نتیجے میں پاکستان کو فوری طور پر 1.1 ارب ڈالر کی پہلی قسط جاری کی جائے گی۔
وزیرِ اعظم شہباز شریف نے اس معاہدے کو سراہتے ہوئے آئی ایم ایف کی سربراہ کرسٹالینا جارجیوا اور اپنی معاشی ٹیم کا شکریہ ادا کیا ہے۔
یہ قرض معاہدہ پاکستان کی تاریخ کا 25واں آئی ایم ایف پروگرام ہے جو کسی بھی ملک کے لیے سب سے زیادہ ہے۔ وزیرِ اعظم شہباز شریف نے امید ظاہر کی ہے کہ یہ آخری موقع ہوگا جب پاکستان کو آئی ایم ایف سے مالی مدد لینی پڑے گی، تاہم ماہرین اس بات پر شکوک و شبہات کا اظہار کر رہے ہیں۔
آئی ایم ایف نے اس قرض کے لیے پاکستان پر سخت شرائط عائد کی ہیں، جن میں ٹیکس کی بنیاد کو وسیع کرنا اور معیشت میں اصلاحات شامل ہیں۔
پاکستان نے اس معاہدے کو حتمی شکل دینے کے لیے چین، سعودی عرب، اور متحدہ عرب امارات سے بھی مدد حاصل کی ہے تاکہ قرض کے اجرا کے لیے درکار شرائط کو پورا کیا جا سکے۔ اس پروگرام کے تحت پاکستان کو وعدہ کرنا پڑا ہے کہ وہ 37 ماہ کے دوران تینوں ممالک اور کویت کو 12 ارب ڈالر سے زیادہ کا قرض واپس نہیں کرے گا۔
آئی ایم ایف کی جانب سے جاری کردہ بیان کے مطابق، اس نئے قرض پروگرام کا مقصد پاکستان کی معیشت کو مستحکم کرنا، عوامی مالیات کو بہتر بنانا اور سماجی اخراجات میں اضافہ کرنا ہے۔ اس کے علاوہ، پروگرام کے تحت زرِ مبادلہ کے ذخائر کو دوبارہ تعمیر کرنے اور معاشی استحکام کو مضبوط کرنے کے لیے اصلاحات کی جائیں گی۔
یہ قرض معاہدہ اس وقت سامنے آیا ہے جب پاکستان شدید معاشی بحران کا شکار ہے جس میں تاریخی سطح کی مہنگائی اور بیرونی ادائیگیوں میں مشکلات شامل ہیں۔ عالمی ریٹنگ ایجنسی موڈیز نے حال ہی میں پاکستان کی ریٹنگ بہتر کرتے ہوئے اس کی معیشت میں معمولی بہتری کی نشاندہی کی ہے۔