ایک حالیہ پیشرفت میں، پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی عمران خان اور شاہ محمود قریشی کو ان کے قریبی ساتھی سمیت سپریم کورٹ آف پاکستان نے سائفر کیس میں ضمانت دے دی ہے۔ یہ فیصلہ قائم مقام چیف جسٹس سردار طارق مسعود، جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس منصور علی شاہ پر مشتمل تین رکنی بینچ کے سامنے سماعت کے بعد سنایا گیا۔
100,000 روپے میں ضمانت سابق وزیر اعظم سمیت پی ٹی آئی کے اعلیٰ رہنماؤں نے مانگی تھی، جو اس وقت راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں ہیں۔ ضمانت کی درخواست شاہ محمود قریشی کے وکیل سلمان صفدر کے ذریعے پیش کی گئی۔
سماعت کے دوران پی ٹی آئی کے بانی کی جانب سے قواعد کی مبینہ خلاف ورزی سے متعلق سوالات اٹھے۔ پراسیکیوٹر رضوان عباسی نے دعویٰ کیا کہ زیر بحث قواعد خفیہ تھے اور صرف اقتدار میں رہنے والوں کے لیے ظاہر کیے گئے تھے۔ جسٹس منصور شاہ نے قواعد کی رازداری پر سوال اٹھایا، جس کے نتیجے میں جسٹس اطہر من اللہ نے استغاثہ کے اپنے اصول کی خلاف ورزی پر اعتراض کیا۔ ججوں نے اس بات پر زور دیا کہ ایک ڈی کوڈ شدہ سائفر، جو ایک بار حکومت کو بھیجا جاتا ہے، اتنا ہی خفیہ رہ جاتا ہے جتنا پہلے تھا۔
جسٹس سردار طارق نے سابق وزیراعظم شہباز شریف کی جانب سے قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں مذکورہ سائفر کی گمشدگی پر تشویش کا اظہار کیا۔ پراسیکیوٹر نے واضح کیا کہ ڈی کوڈ شدہ سائفر کی صرف ایک کاپی پیش کی گئی، اصل دستاویز کی نہیں۔
یہ بھی پڑھیں | پلڈاٹ نے پاکستان میں نوجوانوں کی انتخابی شرکت کے حوالے سے اہم رپورٹ پیش کی۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کیس کی ایف آئی آر پر سخت اعتراض کرتے ہوئے سوال کیا کہ کس نے طے کیا کہ ڈی کوڈ شدہ دستاویز کو پبلک کرنے سے پاک امریکہ تعلقات کو نقصان پہنچے گا۔ انہوں نے اس بات پر بھی غور کیا کہ بین الاقوامی سطح پر پاکستان کے امیج پر کیا اثرات مرتب ہوں گے اور کیا 1970 یا 1977 جیسے حالات پیدا ہو سکتے ہیں۔
جسٹس اطہر من اللہ نے زور دے کر کہا کہ عدالت نہ صرف پی ٹی آئی کے بانی بلکہ پاکستانی عوام کے حقوق کا بھی تحفظ کر رہی ہے۔ انہوں نے سیاسی رہنماؤں کے جبر سے گزرنے کی ضرورت پر سوال اٹھایا اور استغاثہ پر زور دیا کہ اگر شاہ محمود قریشی کو رہا کیا جاتا ہے، خاص طور پر انتخابات کے قریب آنے پر ملک کو ہونے والے ممکنہ نقصان کی وضاحت کرے۔