پی ٹی آئی کی زیر حراست خواتین کارکنوں کی جیل میں بدسلوکی کی تردید
عدالت میں پیشی کے بعد پی ٹی آئی کی زیر حراست رہنما صنم جاوید خان نے جیل کے اندر تشدد اور بدسلوکی کے الزامات سے متعلق سوالات کے جوابات دیئے۔
صنم جاوید نے بدسلوکی کے کسی بھی واقعے کی سختی سے تردید کی اور دلیل دی کہ چونکہ وہ کسی غلط کام میں ملوث نہیں ہیں، اس لیے وہ بدسلوکی کا نشانہ کیوں بنیں گی؟
جیل میں قید خواتین کا تبصرہ
انہوں نے کہا کہ جب ہم نے کچھ غلط نہیں کیا ہے تو کوئی زیادتی کیوں ہوگی۔ ایک اور کارکن نے مزید کہا کہ ہم معصوم خواتین کو جیل میں رکھنے سے بڑھ کر زیادتی اور کیا ہو سکتی ہے؟
پی ٹی آئی کی ایک اور رکن عالیہ حمزہ نے اپنے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے ان کے گھروں میں زبردستی گھسنے کی وجہ پوچھی۔
کیا یہ قابل مذمت نہیں کہ جس طرح انہوں نے ہمارے گھر پر دھاوا بولا؟ اگر آپ کو ہمارے سوشل میڈیا اکاؤنٹس سے کوئی مسئلہ ہے تو آپ ہمارے خلاف سوشل میڈیا قوانین کا استعمال کر سکتے ہیں لیکن کیا ہمیں سیاسی انتقام کا نشانہ بنانا ضروری ہے؟
یہ پیشرفت ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب سابق وزیر اعظم عمران خان نے کہا تھا کہ 9 مئی کے فسادات کے بعد گرفتار ہونے والی ان کی پارٹی کی خواتین کارکنوں اور حامیوں کے ساتھ بدسلوکی کی اطلاعات ہیں جن میں "ریپ” بھی شامل ہے۔
افسران کے خلاف غیر اخلاقی پوسٹس کے خلاف کریک ڈاؤن
ادھر لاہور پولیس نے سوشل میڈیا پر اپنے افسران کو نشانہ بنانے والی نامناسب اور غیر اخلاقی پوسٹس کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کر دیا ہے۔
حکام نے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر توہین آمیز پوسٹس کے پیچھے افراد کی شناخت اور ان کا پتہ لگانے کے لیے وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) سے رابطہ کرکے مجرموں کا سراغ لگانے کے لیے پہل کی ہے۔
یہ بھی پڑھیں | پی ٹی آئی کے ساتھ کھڑے ہونے پر لوگوں پر تشدد کیا جا رہا ہے، عمران خان
ان کا کہنا تھا کہ ایسے افراد کے آئی پی ایڈریس کا پتہ لگایا جائے گا اور فرضی شناخت کے تحت کام کرنے والے اکاؤنٹس کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔
مزید برآں، ٹرولنگ میں ملوث اور غیر ملکی دائرہ اختیار سے چلنے والے اکاؤنٹس کو بلاک کر دیا جائے گا۔