پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی قیادت میں اسلام آباد احتجاج کے حوالے سے اختلافات شدت اختیار کر چکے ہیں۔ پارٹی کے مختلف رہنما احتجاج کے طریقہ کار اور عمران خان کی جیل سہولتوں کے معاملے پر مختلف مؤقف رکھتے ہیں۔ یہ صورتحال پارٹی کے اندرونی خلفشار کو ظاہر کرتی ہے جبکہ حکومت کی جانب سے قانونی کارروائیاں مزید دباؤ ڈال رہی ہیں۔
عمران خان اور دیگر قیادت پر الزامات
اسلام آباد پولیس نے پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان اور دیگر اہم رہنماؤں کے خلاف متعدد کیسز درج کیے ہیں۔ ان مقدمات میں دہشت گردی، پولیس پر حملے، اغوا اور سرکاری امور میں مداخلت جیسے سنگین الزامات شامل ہیں۔ یہ کیسز شہر کے مختلف تھانوں میں درج کیے گئے ہیں جن میں شہزاد ٹاؤن، سہالہ، بنی گالہ، اور دیگر شامل ہیں۔
24 نومبر کو شروع ہونے والے احتجاج میں پی ٹی آئی کارکنان نے وفاقی دارالحکومت میں داخلے کی کوشش کی، لیکن پولیس اور رینجرز کی کارروائیوں کے بعد مظاہرین کو منتشر کر دیا گیا۔ حکومت نے اسلام آباد میں دھرنے یا جلسے کی اجازت نہ دینے کا فیصلہ کیا تھا، جس کی خلاف ورزی پر قانونی کارروائی کی گئی ہے۔
عمران خان کی جیل سہولتیں
عمران خان، جو کہ راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں مختلف مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں، نے اپنے لیے مزید سہولتوں کا مطالبہ کیا ہے۔ تاہم، حکومت اور جیل انتظامیہ نے ان مطالبات کو مسترد کر دیا ہے۔ ان سہولتوں پر پی ٹی آئی قیادت کے اندر بھی رائے منقسم ہے، جہاں کچھ رہنما احتجاج میں شدت لانے پر زور دے رہے ہیں، جبکہ دیگر قانونی حکمت عملی کی حمایت کر رہے ہیں۔
مستقبل کا لائحہ عمل
پارٹی قیادت میں بڑھتے اختلافات اور حکومت کی سخت پالیسیوں نے پی ٹی آئی کو ایک مشکل صورتحال میں ڈال دیا ہے۔ احتجاج کی ناکامی اور قانونی کارروائیوں کے تناظر میں، پارٹی کو اپنی حکمت عملی پر نظرثانی کی ضرورت ہے۔