وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ایف اے ٹی ایف کے قوانین کو حکومت ایک قومی فریضہ سمجھتی ہے مگر اپوزیشن کی جانب سے ان قوانین کی منظوری کی آڑ میں حکومت سے لکھ کر این آر او مانگا گیا۔ جن لوگوں کو قوم نے ووٹ کی طاقت سے مسترد کر دیا ہے اب وہ چاہتے ہیں کہ کسی صورت ہماری چوری چھہ جائے۔
نواز شریف کو ہر صورت واپس لانا چاہیے۔ قانونی ٹیم کو چاہیے کہ گوسلوکی پالیسی ختم کرے۔ کہا کہ قومی مفاد کے مقابلے میں زیرو ٹالرینس کی پالیسی ہے لہذا اپوزیشن کو کسی قسم کا کوئی این آر او نہیں دیا جائے گا۔ عمران خان نے سوالیہ انداز میں کہا کہ جن لوگوں نے قومی دولت کو لوٹا ان کو فری ہینڈ کیسے دے دیں؟
زرائع کے مطابق نواز شریف کو واپس پاکستان لانے کے لئے وزیر اعظم عمران خان کے ترجمانوں کا اجلاس ہوا جس میں فیصلہ ہوا کہ حکومت ہر ممکن قانونی آپشن استعمال کرے گی اور نواز شریف کو واپس لے کر آئے گی۔
عمران خان کا کہنا تھا کہ اگر این آر او ہی دینا ہے تو پھر ہمیں سیاست اور اپوزیشن دونوں میں ہی نہیں رہنا چاہیے۔ اگر آج اپوزیشن کو این آر او دے دیا جائے تو یہ تین سال خاموشی سے بیٹھ جائیں گے لیکن اس سے جو ہمارا فلسفہ ہے وہ ختم ہو جائے گا۔
تفصیلات کے مطابق ترجمانوں کے اس اجلاس میں فواد چوہدری مراد سعید، شبلی فراز اور زلفی بخاری سمیت دیگر رہنما بھی شامل تھے۔ زرائع کے مطابق اس اجلاس میں مولانا فضل الرحمن کے سیاسی پلان اور نواز شریف کی لندن سے جاری سیاسی سرگرمیاں بھی زیر بحث رہیں۔
فواد چوہدری کی جانب سے نواز شریف شہباز شریف اور آصف علی زرداری کے کیسز پر بریفنگ دی گئی جبکہ ڈاکٹر شہباز گل کی جانب سے نواز شریف کی لیبارٹری کی رپورٹس میں ممکنہ ہیر پھیر پر بات کی گئی جبکہ زلفی بخاری کی جانب سے نواز شریف کے لندن واپسی کے پلانز پر بریفنگ دی گئی۔