فرانس نے پیرس اولمپکس 2024 میں فرانسیسی خواتین ایتھلیٹس کے لیے حجاب پر پابندی کو ان کی مذہبی اور ذاتی آزادیوں کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔ جبکہ فرانس کی اس پابندی پر اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ارکان نے سخت رد عمل کا اظہار کیا ہے۔
اقوام متحدہ کے ترجمان مارتا ہرتادو نے اس فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ کسی بھی خاتون پر ان کے لباس کے انتخاب کے حوالے سے پابندی لگانا بین الاقوامی انسانی حقوق کے اصولوں کے خلاف ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ لباس پر اس قسم کی پابندیاں عوامی تحفظ یا صحت کے جائز مقاصد کے تحت مخصوص حالات میں ہی جائز ہوسکتی ہیں، ورنہ یہ قوانین غیر ضروری سمجھی جاتی ہے۔
یاد رہے کہ فرانس کی حکومت نے 2004 سے مختلف اداروں میں حجاب پر پابندیاں عائد کی ہیں جسے ملک کی سیکولر پالیسی یعنی “لائسیٹ” کی ایک شق کے تحت جائز سمجھا جاتا ہے۔ تاہم، حالیہ پابندی خاص طور پر ان ایتھلیٹس کو متاثر کرتی ہے جو حجاب پہن کر کھیلوں میں حصہ لینا چاہتی ہیں۔
مختلف انسانی حقوق کی تنظیموں اور عالمی کھیلوں کے حلقوں نے بھی اس فیصلے پر فرانس کی مذمت کی ہے جبکہ خواتین کے حقوق کی تنظیموں نے بھی فرانسیسی حکومت سے درخواست کی ہے کہ وہ اس پابندی کو ختم کرے تاکہ خواتین آزادی سے اپنی مذہبی شناخت کے ساتھ کھیلوں میں حصہ لے سکیں۔
اس سلسلے میں انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ہیومن رائٹس واچ اور کئی کھیلوں کے ماہرین نے فرانسیسی حکومت کو اس پابندی کو انسانی حقوق کے اصولوں کے خلاف قرار دیا ہے اور اس پر نظر ثانی کی درخواست کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ کھیل کے میدان میں ہر فرد کو مساوی حقوق فراہم کیے جانے چاہئیں، اور اس طرح کی پابندیاں خواتین کو کھیلوں میں حصہ لینے سے روکنے کا سبب بنتی ہیں۔