7 اکتوبر 2024 سے جاری صیہونی ظلم و ستم کے نتیجے میں غزہ سے اب تک 21 ہزار فلسطینی بچوں کے لاپتہ ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔
الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق بچوں کے حقوق اور فلاح و بہبود کے لیے کام کرنے والی بین الاقوامی تنظیم "سیو دی چلڈرن” کا کہنا ہے کہ غزہ کی جنگ کے دوران لاپتہ ہونے والے ہزاروں بچے یا تو تباہ شدہ عمارتوں کے ملبے تلے دبے ہوئے ہیں، یا انہیں کسی اجتماعی قبر میں دفنا دیا گیا ہے، یا پھر انہیں اسرائیلی فوج نے گرفتار کر کے لے جایا ہے۔
"سیو دی چلڈرن” کے نمائندے کا کہنا ہے کہ جنگ کے دوران یہ ہزاروں بچے اپنے والدین سے بچھڑ گئے اور ان میں سے کچھ بچوں کی ایک نامعلوم تعداد کو جبری طور پر غزہ سے باہر لے جایا گیا، جہاں ان کے ساتھ غیر انسانی سلوک روا رکھا جا رہا ہے۔
تنظیم کے نمائندے کے مطابق غزہ میں جنگ کی موجودہ صورتحال میں معلومات جمع کرنا اور ان کی تصدیق کرنا مشکل ہے، مگر کم از کم 17 ہزار بچے اپنے خاندانوں سے جدا ہو گئے ہیں جبکہ 4000 بچے تباہ شدہ گھروں اور عمارتوں کے ملبے تلے دبے ہوئے ہیں۔
"سیو دی چلڈرن” کے مطابق، ایک بڑی تعداد میں بچوں کو اجتماعی قبروں میں دفنا دیا گیا ہے۔ جنگ کی ہولناکیوں کے درمیان، بچوں کا محفوظ رہنا ایک بڑا چیلنج بن چکا ہے۔ بہت سے بچے جو زندہ بچ گئے ہیں، انہیں شدید ذہنی اور جسمانی صدمات کا سامنا ہے۔
اس خوفناک صورتحال میں، بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیمیں اور بین الاقوامی ادارے بار بار عالمی برادری سے اپیل کر رہے ہیں کہ وہ فوری طور پر جنگ بندی اور بچوں کی حفاظت کے لیے اقدامات کریں۔ غزہ میں بچوں کی حالتِ زار انتہائی تشویشناک ہے اور فوری امداد کی ضرورت ہے۔
جنگ کے دوران بچوں کے لیے بنیادی سہولتوں کی فراہمی، جیسے کہ خوراک، پانی، اور طبی امداد، بھی شدید متاثر ہوئی ہے۔ بے شمار بچے بھوک اور پیاس کا سامنا کر رہے ہیں، جبکہ بہت سے بچے جنگ کے زخموں سے نمٹنے کے لیے فوری طبی امداد کے منتظر ہیں۔
بین الاقوامی برادری کو چاہیے کہ وہ غزہ میں جاری اس بحران کا فوری نوٹس لے اور بچوں کے حقوق کی حفاظت کے لیے عملی اقدامات اٹھائے۔ جنگ کی تباہ کاریوں کے بعد بچوں کی بحالی اور ان کے مستقبل کو محفوظ بنانے کے لیے مؤثر حکمت عملی وضع کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔