وفاقی حکومت نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں مؤقف اختیار کیا ہے کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کے بدلے شکیل آفریدی کو امریکا کے حوالے کرنے کی تجویز قابلِ عمل نہیں۔
جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان کی سربراہی میں کیس کی سماعت ہوئی، جس میں ایڈیشنل اٹارنی جنرل منظور اقبال ڈوگل نے عدالت کو آگاہ کیا کہ حکومت نے اس تجویز کو مسترد کر دیا ہے۔ یہ تجویز ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے امریکی وکیل کلائیو اسمتھ کی جانب سے دی گئی تھی۔
عدالتی کارروائی میں حکومت کا مؤقف
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ شکیل آفریدی اور ڈاکٹر عافیہ صدیقی دونوں پاکستانی شہری ہیں، اور پاکستان اور امریکا کے درمیان قیدیوں کے تبادلے کا کوئی معاہدہ موجود نہیں۔
جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان نے حکومت کے اس فیصلے پر حیرانی کا اظہار کیا اور سوال کیا کہ آخر شکیل آفریدی امریکا کے لیے اتنا اہم کیوں ہے؟ اس پر عدالت کو آگاہ کیا گیا کہ شکیل آفریدی کو عدالت سے سزا ہو چکی ہے اور اس کی اپیل پشاور ہائی کورٹ میں زیرِ التوا ہے۔
عافیہ صدیقی کی رہائی کے حوالے سے حکومتی جواب
عافیہ صدیقی کی بہن فوزیہ صدیقی کے وکیل نے عدالت میں مؤقف اختیار کیا کہ شکیل آفریدی پر جاسوسی اور دیگر افراد کی مدد کرنے کے الزامات ہیں، اس لیے اس کے بدلے میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کا مطالبہ کیا جا رہا تھا۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو آگاہ کیا کہ حکومت نے 19 فروری کو اس حوالے سے جواب داخل کر دیا تھا، جس میں بتایا گیا کہ امریکی صدر جو بائیڈن نے یہ درخواست مسترد کر دی ہے، لیکن اس کا باضابطہ جواب نہیں دیا۔
جسٹس سردار اعجاز نے ریمارکس دیے کہ وائٹ ہاؤس نے پاکستانی حکومت کے خط کو باضابطہ طور پر تسلیم بھی نہیں کیا، اور سوال کیا کہ سفارتی تعلقات میں اس طرح کے معاملات کیسے نمٹائے جاتے ہیں؟
مزید سماعت اگلے ہفتے تک ملتوی
عدالت نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو ہدایت دی کہ وہ حکومت سے مشاورت کر کے تفصیلی جواب جمع کروائیں اور اس معاملے میں موجود اعتراضات کی وضاحت کریں۔ کیس کی مزید سماعت اگلے جمعہ تک ملتوی کر دی گئی ہے۔
ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کا معاملہ پاکستان میں ایک اہم مسئلہ رہا ہے، اور یہ دیکھنا باقی ہے کہ آیا حکومت اس معاملے پر کوئی سفارتی پیش رفت کر سکے گی یا نہیں۔