سارہ شریف کیس میں حیران کن انکشافات سامنے آئے ہیں جن میں بچی کے والد عرفان شریف نے اس پر تشدد اور قتل کا اعتراف کیا ہے۔ اس کیس نے بین الاقوامی سطح پر توجہ حاصل کی ہے کیونکہ اس میں کئی پیچیدہ اور سنگین الزامات شامل ہیں۔
سارہ شریف کیس کی تفصیلات
سارہ شریف ایک دس سالہ بچی تھی جو اگست 2024 میں اپنی رہائش گاہ پر مردہ پائی گئی تھی۔ اس کے والد عرفان شریف اور سوتیلی والدہ بیناش بٹول نے فوری طور پر ملک چھوڑ کر پاکستان جانے کا فیصلہ کیا۔ تاہم، بعد میں دونوں برطانیہ واپس آئے اور ان پر مقدمہ چلایا گیا۔ عدالت میں عرفان شریف نے یہ بیان دیا کہ سارہ کی موت میری وجہ سے ہوئی لیکن انہوں نے قتل کی نیت سے انکار کیا۔ ان کے مطابق، ان کا مقصد قتل نہیں تھا بلکہ “تادیبی” اقدام کے نتیجے میں بچی کی موت واقع ہوئی۔
سارہ شریف کے گھریلو حالات اور تشدد
عدالت کو بتایا گیا کہ سارہ کو مبینہ طور پر بار بار تشدد کا سامنا تھا اور اسے جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا رہا۔ عرفان شریف نے اعتراف کیا کہ انہوں نے اسے “کرکٹ بیٹ” یا کسی دوسری سخت شے سے مارا جس سے اس کے جسم پر نشانات اور زخم آئے۔ اس کے علاوہ، بچی کے جسم پر چوٹیں اور جلے ہوئے نشانات بھی پائے گئے۔
سارہ شریف کے ہمسایوں اور استاد کی گواہیاں
پڑوسیوں نے بتایا کہ گھر سے اکثر بچوں کی چیخیں اور رونے کی آوازیں سنائی دیتی تھیں۔ ایک پڑوسی نے عدالت کو بتایا کہ چیخیں سن کر انہیں لگا کہ شاید بچی کو شدید اذیت دی جا رہی ہے۔ سارہ کے استاد نے بھی بیان دیا کہ بچی کے جسم پر کئی بار نیل دیکھے گئے اور اسے 2024 میں اسکول سے ہٹا کر گھر میں تعلیم دی جانے لگی۔ استاد کے مطابق، سارہ نے اکثر اپنی چوٹوں کو چھپانے کی کوشش کی، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ کسی خوف میں مبتلا تھی۔
سارہ شریف کیس کی قانونی کارروائی اور والد کا بیان
عرفان شریف نے عدالت میں اپنے بیانات میں مختلف موقف اختیار کیے۔ پہلے انہوں نے قتل کا الزام اپنی بیوی پر عائد کیا لیکن بعد میں عدالت میں اعتراف کیا کہ سارہ کی موت میری وجہ سے ہوئی۔ ان کے مطابق، وہ اپنے اعصاب پر قابو نہیں رکھ سکے اور حد سے زیادہ تشدد کیا جس کے نتیجے میں سارہ کی جان چلی گئی۔ دوسری طرف ان کی سوتیلی والدہ بیناش بٹول اس الزام کی تردید کر رہی ہیں۔