آپ میں سے تقریبا ہر کسی نے روبوٹ کا لفظ سنا ہو گا۔ اکثر یہ لفظ عام گفتگو میں بھی استعمال ہوتا ہے لیکن اصل میں اس کا مطلب مختلف ہے۔ اس لفظ کو تقریباً ایک صدی پہلے جبری مشقت کرنے والوں کے لئے متعارف کروایا گیا تھا جبکہ روبوٹ کی سائنسی تعریف آج بھی ایک مسئلہ ہے جس پر سائنسدان بحث کرتے نظر آتے ہیں۔
بین الاقوامی تنظیم برائے معیار کاری کی بیان کی گئی تعریف کے مطابق روبوٹ خود سے دو یا دو سے زیادہ ڈومینز میں مطلوبہ کام کرنے والی مشین کا نام ہے۔ یہ بہت بنیادی تعریف ہے جسے ہم آسانی سے سمجھ سکتے ہیں۔ اس سے بھی آسان الفاظ میں یہ سمجھ لیں کہ روبوٹ ایک مشین ہے جو خودبخود کام کرتی ہے جبکہ وہ کام انسانی کام سے ملتا جلتا ہے یعنی انسان کی وجہ کوئی مشین بظاہر انسانی کام سرانجام دیتی ہے۔
‘روبوٹکس کی تاریخ’
دنیا میں پہلا روبوٹکس آلہ ’اباکس یا گنتارا‘ کے نام سے ایجاد ہوا جو کہ پانچ ہزار سال پہلے چینیوں نے ایجاد کیا تھا۔ اس آلے کے زریعے عددی جمع تفریق کا کام کیا جاتا تھا جبکہ روبوٹ کی تعریف کے قریب 3000 قبل مسیح میں مائع سے چلنے والی گھڑیاں تھیں۔
اس کے بعد انسان کی طرح چلنے والی گڑیا وغیرہ آلات بنائے گئے جو کہ روبوٹکس کی تعریف سے ملتے ہیں۔
بات کریں تاریخ کی تو دنیا کا پہلا روبوٹ ’یونیمیٹ‘ کے نام سے سن1950 میں ایک امریکی سائنسدان نے بنایا تھا جسے ’جوزف اینجلبگر‘ نے یونیمیٹ کا پیٹنٹ خرید کر اپ ڈیٹ کیا اور روبوٹ بنانے والی پہلی کمپنی کی بنیاد رکھی اور یہی وجہ ہے کہ انہیں ’فادر آف روبوٹکس‘ کا خطاب دیا گیا۔
‘روبوٹکس کا مستقبل’
سائنسدانوں کے مطابق آج کی دنیا میں ہم چوتھے صنعتی انقلاب سے گزر رہے ہیں جبکہ اس کا اہم حصہ روبوٹس ہیں۔ سال 2021 کے اعداد و شمار کے مطابق روبوٹکس کے کاروبار کی مالیت 55.8 بلین ڈالر ہے جو کہ ایک اندازے کے مطابق 2026 تک 91.8 بلین ڈالر تک پہنچ جائے گا۔ ایک اندازہ یہ بھی ہے کہ اس وقت دنیا میں 120 ملین سے زیادہ روبوٹس کام کر رہے ہیں جو کہ سال 2026 تک 5 بلین کا عدد کراس کر سکتے ہیں۔
مستقبل کے دور میں اگر ٹیکنالوجی کی بات کریں تو روبوٹکس کے بغیر یہ موضوع ہی ادھودا رہ جاتا ہے۔ روبوٹ مستقبل ہیں اور یہ بہت سی انسانی نوکریاں بھی نگل جائیں گے مثال کے طور پر ہوٹل میں خادم کی وجہ کوئی روبوٹ کھانا پیش کرے گا اگرچہ ایسا اب بھی ہو رہا ہے لیکن اتنا عام نہیں ہے جتنا مستقبل میں ہو جائے گا۔ اس کے علاوہ بہت سے ایسے کام جو انسان کرتے ہیں جب روبوٹ سے وہ کام لیا جائے تو عالمی سطح پر بےروزگاری کا مسئلہ مزید بگڑ سکتا ہے۔ سائنسدان کہتے ہیں کہ مستقبل قریب میں تقریبا ہر گھر میں ایک روبوٹ لازمی ہو گا۔
یہ بھی پڑھیں | کیا ٹائم ٹریول ممکن ہے؟
جیسا کہ ہم نے ذکر کیا کہ روبوٹس انسانوں کی جگہ لے لیں گے تو اس کے بڑھتے رجحان کو کم کرنے اور انسانوں کو کام کے لئے ترجیح دلوانے کے لئے کچھ روبوٹ مخالف تنظیمیں بھی کام کر رہی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ روبوٹس مزدوروں کا معاشی قتل کر رہے ہیں اور اس سے بیروزگاری میں اضافہ ہو گا جو کہ بات بھی سہی ہے۔
دوسری طرف روبوٹسٹ کے حامی سیاستدان کہتے ہیں کہ روبوٹ بھی انسانوں کے ماتحت ہی کام کریں گے۔ لہذا اس سے جہاں کچھ نوکریاں کم ہوں گی وہاں روبوٹ انڈسٹری سے وابستہ نوکریوں میں اضافہ بھی ہو گا اور پھر ہر روبوٹ کو چلانے کے لئے بھی کسی انسان کی ہی ضرورت ہو گی۔ یوں مختلف نظریات کی حامل تنظیمیں روبوٹکس کی حمایت اور مخالفت بھی کر رہی ہیں۔
ایسے بدلتے ہوئے دور میں انسانوں کو بھی بدلنا ہو گا ورنہ روبوٹس واقعتا انسانوں کی نوکریاں کھا جائیں گے لہذا انسانوں کو جدید تقاضوں کے مطابق روزگار کرنا ہو گا۔ اگر بات کی جائے پاکستان کی تو یہاں کی زیادہ تر آبادی ہاتھ سے کام کرتی اور پیسے کماتی ہے جبکہ بیرون ملک پاکستانیوں کے روزگار کا بھی کچھ یوں ہی سلسلہ ہے۔ لہذا اب ہمیں نئے تقاضوں کے مطابق ڈھلنا ہو گا۔ مثال کے طور پر پاکستانی بینکوں میں آج سے کچھ سال پہلے جتنا عملہ تھا اب بہت کم ہے۔ اب اس کی جگہ انٹرنیٹ بینکنگ نے لے لی ہے اور صارفین کو بینک کا چکر بہت ہی مخصوص صورتوں میں لگانا پڑتا ہے۔ اسی طرح ٹیکنالوجی مزید ترقی کر رہی ہے اور موبائل انٹرنیٹ اور روبوٹ مل کر کم از کم آسان انسانی نوکریاں کم کر رہے ہیں اور مشکل سکلز کی ڈیمانڈ بڑھ رہی ہے۔
خیر کچھ بھی ہو آنے والا وقت روبوٹکس کا ہے اور آرٹیفیشل انٹیلیجینس کو اس میں سمایا جائے تو یہ سونے پر سہاگہ ہو جاتا ہے۔ بنیادی طور پر روبوٹکس کے اندر آرٹیفیشل انٹیلی جینس ہی کام کرتی ہے۔ جس لحاظ سے ٹیکنالوجی ترقی کا سفر طے کر رہی ہے کچھ بعید نہیں کہ روبوٹ اور آرٹیفیشل انٹیلیجینس لگائے گئے اندازوں سے بھی زیادہ ترقی کر لے۔