جسٹس امین الدین خان نے جمعہ کے روز وفاقی آئینی عدالت (Federal Constitutional Court) کے پہلے چیف جسٹس کے طور پر حلف اٹھایا ہے۔ یہ عدالت 27ویں آئینی ترمیم کے بعد قائم کی گئی ہے جس کا مقصد آئینی نوعیت کے مقدمات کو زیادہ مؤثر طریقے سے سننا اور سپریم کورٹ کا بوجھ کم کرنا ہے۔
حلف برداری کی تقریب ایوانِ صدر میں ہوئی جہاں صدر آصف علی زرداری نے جسٹس امین الدین سے ان کے عہدے کا حلف لیا۔ تقریب میں اعلیٰ فوجی اور سول شخصیات موجود تھیں جن میں آرمی چیف فیلڈ مارشل عاصم منیر اور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی جنرل ساحر شمشاد مرزا شامل تھے۔ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس یحییٰ آفریدی، وزیر اعظم شہباز شریف اور دیگر اہم حکومتی شخصیات بھی اس موقع پر اسٹیج پر موجود تھیں۔
اس تقریب میں پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری، آصفہ بھٹو زرداری، ڈپٹی وزیر اعظم اسحاق ڈار، قومی اسمبلی کے اسپیکر ایاز صادق، سینیٹ کے چیئرمین یوسف رضا گیلانی اور وفاقی کابینہ کے دیگر ارکان بھی شریک ہوئے۔ تقریب کا آغاز تلاوتِ قرآن پاک سے ہوا جس کے بعد صدر مملکت نے جسٹس امین الدین خان سے انگریزی زبان میں حلف لیا۔
اپنے حلف میں جسٹس امین الدین نے یہ عہد کیا کہ وہ اپنے فرائض آئین اور قانون کے مطابق انجام دیں گے اور کسی بھی ذاتی دلچسپی کو اپنے عدالتی کردار پر اثر انداز نہیں ہونے دیں گے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ وہ ہر حال میں انصاف کو قائم رکھیں گے اور کسی خوف، دباؤ یا جانبداری کے بغیر فیصلے کریں گے۔ حلف کے بعد انہوں نے صدر زرداری سے مصافحہ کیا۔
ان کی تقرری صدر مملکت نے آئین کے آرٹیکل 175A(3) اور 175C کے تحت کی جو ان کے حلف اٹھانے کے فوراً بعد مؤثر ہو گئی۔
وفاقی آئینی عدالت کے قیام کا فیصلہ حکومت کی حالیہ عدالتی اصلاحات کا حصہ ہے۔ حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ اس نئی عدالت کا مقصد سپریم کورٹ پر بڑھتا ہوا دباؤ کم کرنا، آئینی مقدمات کو جلد نمٹانا اور عدلیہ کی ساکھ اور خودمختاری کو بہتر بنانا ہے۔
اسی دوران صدر مملکت نے وفاقی آئینی عدالت کے چھ ججوں کی تقرری بھی کر دی۔ قانون کی وزارت کی جانب سے جاری کردہ نوٹیفکیشن کے مطابق جن ججوں کا انتخاب کیا گیا ہے ان میں سپریم کورٹ کے جسٹس سید حسن اظہر رضوی، جسٹس عامر فاروق اور جسٹس علی باقر نجفی شامل ہیں۔ اس کے علاوہ سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس کے کے آغا، بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس روزی خان باریچ اور ریٹائرڈ جسٹس ارشد حسین شاہ کا نام بھی فہرست میں شامل ہے۔ ذرائع کے مطابق جسٹس مسرت ہلالی نے ایف سی سی میں شمولیت سے معذرت کی تھی۔
وفاقی آئینی عدالت کے لیے ججوں کی ابتدائی تعداد ایک صدارتی حکم کے ذریعے مقرر کی گئی ہے جبکہ مستقبل میں کسی اضافے کے لیے پارلیمنٹ کی منظوری درکار ہوگی۔ جمعے کے روز جسٹس امین الدین نے ان میں سے تین ججوں جسٹس رضوی، جسٹس فاروق اور جسٹس نجفی سے اسلام آباد ہائی کورٹ میں حلف لیا۔ یہ تقریب ایف سی سی یا شریعت کورٹ کے بجائے آئی ایچ سی میں اس لیے رکھی گئی کیونکہ شریعت کورٹ کے ججوں نے فوری طور پر اپنی جگہ تبدیل کرنے پر تحفظات ظاہر کیے تھے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ جسٹس امین الدین کی حلف برداری کی تقریب اصل میں جمعرات کی صبح ہونی تھی لیکن 27ویں آئینی ترمیم میں ایک چھوٹی سی تبدیلی کے باعث بل دوبارہ سینیٹ کو بھیجا گیا۔ سینیٹ سے منظوری کے بعد تقریب پہلے شام کے لیے موخر کی گئی اور پھر جمعے کی صبح منعقد کی گئی۔ شروع میں یہ طے تھا کہ تقریب شریعت کورٹ کی عمارت میں ہوگی مگر وہاں تعینات ججوں نے اپنی اچانک منتقلی پر اعتراض اٹھایا جس کی وجہ سے مقام تبدیل کرنا پڑا۔






