ایران نے شام کے دارالحکومت دمشق میں اپنے قونصل خانے پر اسرایلی حملے کا بدلہ لینے کے عزم کے ساتھ اسرائیل کی طرف ڈرون اور میزائل داغے ہیں۔
یاد رہے کہ اسرائیل نے قونصل خانے پر حملہ کا اقرار نہیں کیا تاہم اسے ہی اس کا ذمہ دار سمجھا جا رہا ہے۔
ایسا پہلی دفعہ ہوا ہے کہ ایران نے اسرائیل پر براہ راست حملہ کیا ہے۔
اس سے قبل اسرائیل اور ایران برسوں سے لفظی گولہ باری میں مصروف تھے – اس کے علاوہ یہ دونوں ذمہ داری قبول کیے بغیر ایک دوسرے کے اثاثوں پر حملے کر رہے تھے۔
اسرائیل اور ایران کی دشمنی کیوں ہیں؟
دونوں ممالک ایران میں 1979 کے اسلامی انقلاب تک اتحادی تھے۔ اسلامی انقلاب سے ایک ایسی حکومت آئی جس نے اسرائیل کی ایک ملک کے طور پر مخالفت کیا۔
ایران پاکستان کی طرح اسرائیل کے وجود کو تسلیم نہیں کرتا اور اس کے خاتمے کا خواہاں ہے۔
ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای اس سے قبل اسرائیل کو ایک "کینسر ” قرار دے چکے ہیں جسے بلاشبہ جڑ سے اکھاڑ دیا جائے گا۔
اسرائیل کا خیال ہے کہ ایران اس کے لئے ایک خطرہ ہے کیونکہ یہ حماس اور لبنانی شیعہ عسکریت پسند گروپ حزب اللہ سمیت فلسطینی گروپوں کی مالی معاونت کرتا اور انہیں اصلحہ مہیا کرتا ہے۔
ایران کا کہنا ہے کہ اسرائیل پر بمباری شام کے دارالحکومت دمشق میں ایرانی قونصل خانے کی عمارت پر یکم اپریل کو کیے گئے فضائی حملے کا جواب ہے جس میں ایران کے سینیئر کمانڈر ہلاک ہوئے تھے۔
ایران نے اسرائیل کو اس فضائی حملے کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے اور اسے اپنی خودمختاری کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔
یاد رہے کہ ایران کے ایلیٹ ریپبلکن گارڈز کی بیرون ملک شاخ قدس فورس کے ایک سینئر کمانڈر بریگیڈیئر جنرل محمد رضا زاہدی سمیت تیرہ افراد اسرائیلی حملے میں جاں بحق ہوئے۔ وہ لبنانی شیعہ مسلح گروپ حزب اللہ کو مسلح کرنے کے لیے ایرانی آپریشن میں اہم شخصیت تھے۔